ساکت ہوا، ٹھہرا پانی، بوجھل فضا
ناپید آنسو، گھٹی چیخیں، جامد خلا
خداوندوں سے گریزاں دعا کی چپ
ہجر کے سفید کفن میں لپٹی امید کی لاش
ذات کے طلسم میں محبوس سیاہ ماتمی صدا
مجھے بے آواز ٹوٹنا پسند نہیں ہے
مجھے سنّاٹا پسند نہیں ہے
محبّت ایسے سراب کی خاطر
نغمہ بیخودی کو تج دینا
کوچہ دل روشن رکھنے کو
ظلمت شہر کو فراموش کر دینا
اپنے پندار کو نادیدہ اشکوں سے ڈھانپ کر
مجھے تکبّر ذات کا آہنگ پسند نہیں ہے
مجھے سنّاٹا پسند نہیں ہے
اپنے غموں کی شناسایی مہمل کی تڑپ میں
اپنی وفاؤں کو خود سے جدا کرنا
حسرت تعمیر کا غم بھلانے کو
جدّت تدبیر کے بہانے کرنا
وصل ایسے صیّاد کی خاطر
مجھے دشت میں آبلہ پا دوڑنا پسند نہیں ہے
مجھے سنّاٹا پسند نہیں ہے
سکیچ بعنوان “ان دیکھے خواب”
Waaah! Bohat khoob janab
LikeLike
thank you very much
LikeLiked by 1 person